ہوا کے پاؤں اس زینے تلک آئے تھے لگتا ہے
دیئے کی لو پہ یہ بوسہ اسی کا ہے
مری گردن سے سینے تک
خراشوں کی لکیروں کا یہ گلدستہ
طلسمی قفل کھلنے کی اسی ساعت کی خاطر
ہجر کے موسم گزارے ہیں
ہوا نے مدتوں میں پاؤں پانی میں اتارے ہیں
مری پسلی سے پیدا ہو
وہی گندم کی بو لے کر
زمیں اور آسماں کی وسعتیں
مجھ میں سمٹ آئیں
الوہی لذت نایاب سے سرشار کر مجھ کو
میں اک پیاسا سمندر ہوں
تو اپنی جسم کی کشتی میں آ
اور پار کر مجھ کو
نظم
جسم کی کشتی میں آ
شہریار