EN हिंदी
جہت کی تلاش | شیح شیری
jihat ki talash

نظم

جہت کی تلاش

شکیب جلالی

;

یہاں درخت کے اوپر اگا ہوا ہے درخت
زمین تنگ ہے (جیسے کبھی فراخ نہ تھی)

ہوا کا کال پڑا ہے، نمی بھی عام نہیں
سمندروں کو بلو کر فضاؤں کو متھ کر

جنم دیے ہیں اگر چند ابر کے ٹکڑے
جھپٹ لیا ہے انہیں یوں دراز شاخوں نے

کہ نیم جاں تنے کو ذرا خبر نہ ہوئی
جڑیں بھی خاک تلے ایک ہی لگن میں رواں

نہ تیرگی سے مفر ہے، نہ روشنی کا سوال
زمیں میں پاؤں دھنسے ہیں فضا میں ہات بلند

نئی جہت کا لگے اب درخت میں پیوند