EN हिंदी
سراج اورنگ آبادی | شیح شیری
siraj aurang-abaadi

نظم

سراج اورنگ آبادی

میکش اکبرآبادی

;

جبین زیست پہ مرقوم ہے مری آواز
کہ تو نے زندہ کئے حسن و عشق کے اعجاز

بدل بدل کے تری دھڑکنوں کو نام ملا
کبھی نوائے حقیقت نوائے مجاز

تری صدائے محبت نے فاش کر ڈالا
وہ راز حشر جو رکھتا ہے ایک محشر راز

نشان راہ کہیں زندگی کے نقش قدم
کہیں حیات کے روندے ہوئے نشیب و فراز

کبھی تو اشک میں خون جگر کا رنگ حیات
کبھی تو آہ میں دل کی دبی ہوئی آواز

نظر نظر میں بہار‌ نگاہ نغمۂ بدوش
نفس نفس میں اک احساس درد نغمہ طراز

بہکتی شام میں تاروں کا رقص رندانہ
روپہلی صبح کا کلیوں سے وہ جمیل انداز

وہ پھول پھول پہ شبنم کی زندگی منظوم
وہ جھرنے جھرنے میں کھوئے ہوئے سے نغمہ و ساز

بہکتی شام میں تاروں کا رقص رندانہ
روپہلی صبح کا کلیوں سے وہ جمیل انداز

وہ پھول پھول پہ شبنم کی زندگی منظوم
وہ جھرنے جھرنے میں کھوئے ہوئے سے نغمہ و ساز

وہ روز ابر میں کیف و نشاط کی بارش
حسین چاندنی راتوں کا وہ لطیف گداز

تری نگاہ نے ایسی نزاکتیں پائیں
کہ حسن خود ہی پکارا کہ میں ہوں عشق کا راز

ابھی فضاؤں میں رقصاں ہے بن کے نغمۂ شوق
خیال کی وہ بلندیٔ نظر کی وہ پرواز

متاع سوز ہے خورشید و ماہ میں اب تک
جو تو نے چھیڑا تھا فکر و نشاط کا اک ساز

تری لطیف صداؤں کی گونج ہے اب تک
ابھی ہیں زہرہ و ناہید گوش بر آواز