جب ہم پہلی بار ملے تھے
موسم کتنا اجلا تھا
میں تھا اک آزاد پرندہ
نیل گگن میں اڑنے والا
تم بھی اتنے عمر رسیدہ کب تھے
بالوں میں یہ چاندی کب تھی
لہجے میں کھنک آنکھوں میں چمک تھی
بات بات پر زور سے ہنسنا
عادت میں بھی شامل تھا
سب کے دکھ سکھ کا حصہ بن جانا
فطرت میں بھی شامل تھا
لیکن اب ایسا لگتا ہے
تم سے بچھڑنے کا پل
شاید آ پہنچا ہے
تم سے بچھڑ کر کل میں جب
اس موڑ پہ پھر واپس آؤں گا
سارے رستے سب دیواریں اور دروازے
مجھ سے میرے ساتھ کے بارے میں پوچھیں گے
رام نارائن اور کیدار بھی
پھر یہ راز نہ کھولیں گے
اور مری آنکھوں میں سارا منظر
دھندلا دھندلا ہو جائے گا
لیکن میں بیتے لمحوں سے
پھر اس کو اجلا کر لوں گا
اور پھر یاد مجھے آئے گا
جب ہم پہلی بار ملے تھے
موسم بالکل ایسا ہی تھا
نظم
جب ہم پہلی بار ملے تھے
فاروق بخشی