مو قلم، ساز گل تازہ تھرکتے پاؤں
بات کہنے کے بہانے ہیں بہت
آدمی کس سے مگر بات کرے؟
بات جب حیلۂ تقریب ملاقات نہ ہو
اور رسائی کہ ہمیشہ سے ہے کوتاہ کمند
بات کی غایت غایات نہ ہو!
ایک ذرہ کف خاکستر کا
شرر جستہ کے مانند کبھی
کسی انجانی تمنا کی خلش سے مسرور
اپنے سینے کے دہکتے ہوئے تنور کی لو سے مجبور
ایک ذرہ کہ ہمیشہ سے ہے خود سے مہجور
کبھی نیرنگ صدا بن کے جھلک اٹھتا ہے
آب و رنگ و خط و محراب کا پیوند کبھی
اور بنتا ہے معانی کا خداوند کبھی
وہ خداوند جو پابستۂ آنات نہ ہو!
اسی اک ذرے کی تابانی سے
کسی سوئے ہوئے رقاص کے دست و پا میں
کانپ اٹھتے ہیں مہ و سال کے نیلے گرداب
اسی اک ذرے کی حیرانی سے
شعر بن جاتے ہیں اک کوزہ گر پیر کے خواب
اسی اک ذرۂ لافانی سے
خشت بے مایہ کو ملتا ہے دوام
بام و در کو وہ سحر جس کی کبھی رات نہ ہو!
آدمی کس سے مگر بات کرے؟
مو قلم، ساز گل تازہ تھرکتے پاؤں
آدمی سوچتا رہ جاتا ہے،
اس قدر بار کہاں، کس کے لیے، کیسے اٹھاؤں
اور پھر کس کے لیے بات کروں؟
نظم
اظہار اور رسائی
ن م راشد