مرگ اسرافیل پر آنسو بہاؤ
وہ خداؤں کا مقرب وہ خداوند کلام
صوت انسانی کی روح جاوداں
آسمانوں کی ندائے بیکراں
آج ساکت مثل حرف ناتمام
مرگ اسرافیل پر آنسو بہاؤ
آؤ اسرافیل کے اس خواب بے ہنگام پر آنسو بہائیں
آرمیدہ ہے وہ یوں قرنا کے پاس
جیسے طوفاں نے کنارے پر اگل ڈالا اسے
ریگ ساحل پر چمکتی دھوپ میں چپ چاپ
اپنے صور کے پہلو میں وہ خوابیدہ ہے
اس کی دستار اس کے گیسو اس کی ریش
کیسے خاک آلودہ ہیں
تھے کبھی جن کی تہیں بود و نبود
کیسے اس کا صور اس کے لب سے دور
اپنی چیخوں اپنی فریادوں میں گم
جھلملا اٹھتے تھے جس سے دیر و زود
مرگ اسرافیل پر آنسو بہاؤ
وہ مجسم ہمہمہ تھا وہ مجسم زمزمہ
وہ ازل سے تا ابد پھیلی ہوئی غیبی صداؤں کا نشاں
مرگ اسرافیل سے
حلقہ در حلقہ فرشتے نوحہ گر
ابن آدم زلف در خاک و نزار
حضرت یزداں کی آنکھیں غم سے تار
آسمانوں کی صفیر آتی نہیں
عالم لاہوت سے کوئی نفیر آتی نہیں
مرگ اسرافیل سے
اس جہاں پر بند آوازوں کا رزق
مطربوں کا رزق اور سازوں کا رزق
اب مغنی کس طرح گائے گا اور گائے گا کیا
سننے والوں کے دلوں کے تار چپ
اب کوئی رقاص کیا تھرکے گا لہرائے گا کیا
بزم کے فرش و در و دیوار چپ
اب خطیب شہر فرمائے گا کیا
مسجدوں کے آستان و گنبد و مینار چپ
فکر کا صیاد اپنا دام پھیلائے گا کیا
طائران منزل و کہسار چپ
مرگ اسرافیل ہے
گوش شنوا کی لب گویا کی موت
چشم بینا کی دل دانا کی موت
تھی اسی کے دم سے درویشوں کی ساری ہاؤ ہو
اہل دل کی اہل دل سے گفتگو
اہل دل جو آج گوشہ گیر و سرمہ در گلو
اب تنا تا ہو بھی غائب اور یارب ہا بھی گم
اب گلی کوچوں کی ہر آوا بھی گم
یہ ہمارا آخری ملجا بھی گم
مرگ اسرافیل سے
اس جہاں کا وقت جیسے سو گیا پتھرا گیا
جیسے کوئی ساری آوازوں کو یکسر کھا گیا
ایسی تنہائی کہ حسن تام یاد آتا نہیں
ایسا سناٹا کہ اپنا نام یاد آتا نہیں
مرگ اسرافیل سے
دیکھتے رہ جائیں گے دنیا کے آمر بھی
زباں بندی کے خواب
جس میں مجبوروں کی سرگوشی تو ہو
اس خداوندی کے خواب
نظم
اسرافیل کی موت
ن م راشد