زمیں پہ پتے بکھر رہے ہیں
خنک ہوا کے اداس جھونکے
گئی رتوں کی تلاش میں ہیں
خزاں زدہ باغ بے بہاراں
یہ کہہ رہا ہے کہ مجھ کو دیکھو
عجیب دن ہیں عجیب راتیں
شکستہ پا بے نشاں سویرے
مرا مقدر ہیں بس اندھیرے
نہ اب پرندے شجر پہ گاتے ہیں گیت کوئی
بس ایک بے نام فاصلہ ہے
جو کہنہ پیڑوں کے درمیاں ہے
یہ گرتے پتوں کی داستاں ہے
بلند و بالا درخت تنہا
فسردہ جنگل کے درمیاں اب لٹے کھڑے ہیں
کہ سارے منظر سسک رہے ہیں
تمام جنگل سکوت غم کے حصار میں ہے
ہمارے ہاتھوں سے مشعل خواب کس نے چھینی
ہوا نہیں ہے تو کون مجرم ہے، کچھ بتاؤ
یہ شام پت جھڑ کی دائمی تو نہیں ہے نازشؔ
بہار کی صبح آنے والی ہے غم نہ کرنا
امید کا جو دیا جلایا ہے، اس کی لو کو
ہواؤں کے ڈر سے کم نہ کرنا
جو کلفتیں ہیں جو وحشتیں ہیں
یہ زندگی کی حقیقتیں ہیں
نظم
اسلام آباد کی ایک شام
نسیم نازش