صفحۂ دل سے ترا نام مٹانے میں مجھے دیر لگی
پوری اک عمر کی دیر!
اشک غم۔۔۔ قطرۂ خوں۔۔۔ آب مسرت سے
مٹا کر دیکھا
رنگ دنیا بھی ملا۔۔۔ رنگ تمنا بھی لگا کر دیکھا
مکتب عشق میں جتنے بھی سبق یاد کیے
یاد رہے
عرصۂ زیست میں خوابوں کے خرابے تھے بہت
ان خرابوں میں
خیالوں کے نگر جتنے بھی آباد کیے
یاد رہے!
گوشۂ رنج میں ہنگامۂ دنیا سے پرے
کون اک ہجر کے شیشے میں اترتا تھا
ترے عکس دلآرام کے ساتھ
کس کی امید کے رستے پہ کوئی دائرۂ نور نہ تھا
کس کی مایوس نگاہوں میں بکھرتے تھے
تمنا کے اجالے بھی۔۔۔ اندھیروں کی طرح
روز روشن میں بھی ہو جاتی تھی
کس دل کے مضافات میں رات،
تو نے جانا ہی نہیں
اور تری خود ساختہ بے خبری کو
قصۂ درد سنانے میں مجھے دیر لگی
آنسوؤں سے مرا آئینۂ غم دھندلایا
ایک سردابۂ دوراں میں جو پوشیدہ و نادیدہ رہی تھی
اب تک
اس تن زار کو۔۔۔ وہ زندگی ہی بھول گئی
دل سے لپٹی ہوئی یک رنگ اداسی کے سبب
رنگ و رامش میں بسی زندہ دلی بھول گئی
پر تری شکل بھلانے میں مجھے دیر لگی
پوری اک عمر کی دیر
عمر۔۔۔
جو لمحۂ جاں کے سوا کچھ بھی نہ تھی
عمر۔۔۔ جو تیری تمنا کے سوا کچھ بھی نہ تھی
بس وہی عمر بتانے میں۔۔۔ مجھے دیر لگی!

نظم
اک عمر کی دیر
ثمینہ راجہ