زہے نشاط زہے حسن اضطراب ترا
نظر کی چھیڑ سے بجتا تھا جب رباب ترا
نہ اب وہ کیف کی راتیں نہ وہ بہار کے دن
کہ محو ناز نہ تھا حسن لاجواب ترا
دم وداع وہ رنگیں اداسیاں تیری
ہنوز یاد ہے وہ دیدۂ پر آب ترا
وہ جھوم جھوم کے ابر بہار کا آنا
وہ بجلیوں کی تڑپ اور وہ اضطراب ترا
وہ ابتدائے محبت وہ چاندنی راتیں
وہ صحن باغ میں ہنستا ہوا شباب ترا
سنبھل سنبھل کے مری سمت وہ نگاہ تری
بچا بچا کے نظر مجھ سے وہ خطاب ترا
مرا حریم تمنا تھا آسماں سے بلند
اس آسماں پہ چمکتا تھا آفتاب ترا
ابھی نظر میں ہے راز و نیاز کا عالم
وہ میری عجز محبت وہ پیچ و تاب ترا
کبھی ستم کے لئے اور کبھی کرم کے لیے
نگاہ شوخ میں ڈوبا ہوا حجاب ترا
مرا سوال بقدر ہجوم شوق نہاں
حیا کی آڑ میں چھپتا ہوا جواب ترا
ہنوز یاد ہے جوہرؔ کو اے نگار جمیل
وہ التفات کے پردے میں اجتناب ترا
نظم
ہنوز یاد ہے
جوہر نظامی