وہ اک بے جان بادل ہے
اسے اڑنا تو آتا ہے
برس کر اپنی صورت ہو بہ ہو رکھنا نہیں آتا
سو جب اس خوبصورت کے
بدن کے لمس کی خاطر
برستا ہے
بھگوتا ہے اسے تسکین سے لبریز کرتا ہے
تو اپنی ہی شباہت کا گماں رکھے
یقین عجز کر کے
اس کے فانی جسم سے رس کر
زمیں کا رزق بنتا ہے
تو لگتا ہے
کسی ان ہونی ساعت نے
زمیں کی تال پر گر کے
بقا کا گیت چھیڑا ہو

نظم
ہوا کے کان میں کہنا اسے بکھرا کے آ جائے
سلمان صدیقی