ہنستی ہوئی لڑکی
ایک آنسو میں رہتی ہے
اس ایک آنسو میں
جب وہ چھپ گئی تھی
تو اسے کسی نے نہیں ڈھونڈا
اور اس ایک آنسو میں
جب وہ گھر گئی تھی
تو کسی کو نہیں مل سکی
اسی آنسو میں سے
ہاتھ بڑھا کے
اس نے پھول توڑے تھے
اور اسی آنسو میں سے اس نے
وہ کتاب پڑھی تھی
جس میں آنسوؤں سے
توڑے ہوئے پھول نہیں رکھے جا سکتے
ہنستی ہوئی لڑکی
بارش میں
اس ایک آنسو سے
باہر نہیں جا سکتی
وہ چلتی ہے
اور ہمیشہ تھک کے بیٹھ جاتی ہے
اپنے کاڑھے ہوئے رومال پر
وہ سنتی ہے اپنی کہی ہوئی کہانی
اور ہر بار رونے لگتی ہے
ہنستی ہوئی لڑکی
اپنی ہتھیلی پہ
آنسوؤں سے
ایک قلعہ بنا لیتی ہے
اور ایک آنسو سے
زیادہ نہیں روتی
نظم
ہنستی ہوئی لڑکی
ذیشان ساحل