EN हिंदी
ہم کسی سے پوچھے بغیر زندہ رہتے ہیں | شیح شیری
hum kasi se puchhe baghair zinda rahte hain

نظم

ہم کسی سے پوچھے بغیر زندہ رہتے ہیں

افضال احمد سید

;

خنجر کے پھل پر
ایک طرف تمہارا نام لکھا ہے

اور دوسری طرف میرا
جنہیں پڑھنا آتا ہے

ہمیں بتاتے ہیں
ہمیں قتل کر دیا جائے گا

جو درخت اگاتا ہے
ہمیں ایک سیب دے دیتا ہے

ہم خنجر سے سیب کے
دو ٹکڑے کر دیتے ہیں

ہم کسی سے پوچھے بغیر زندہ رہتے ہیں
اور کسی کو بتائے بغیر

محبت کرتے ہیں
میں نے گنتی سیکھی

اور یاد رکھا
تم تک پہنچنے کے لئے مجھے

کتنی سیڑھیاں طے کرنی پڑتی ہیں
ایک دن تم یہ ساری سیڑھیاں

نظموں کی کتاب میں رکھ کر
مجھے دے دو گی

ایک دن میں تمہیں بتاؤں گا
سمندر وہاں سے شروع ہوتا ہے

جہاں سے خشکی نظر آنی ختم ہو جائے
پھر ہم جب چاہیں گے

نظموں کی کتاب سے
ایک ورق پھاڑ کر کشتی بنا لیں گے

اور
دوسرا ورق پھاڑ کر

سمندر
پھر ہم جب چاہیں گے

زمین کی گردش روک کر
رقص کرنے لگیں گے

ناچتے ہوئے آدمی کے دل کا نشانہ
مشکل سے لیا جا سکتا ہے