EN हिंदी
ہم انجام | شیح شیری
hum anjam

نظم

ہم انجام

سرشار صدیقی

;

مری مانند وہ بھی
ظلمت شب کی مسافر تھی

اندھیرے راستوں میں
صبح نو کے خواب

آنکھوں میں سجائے
بہ نام منزل بے نام

افتاں اور خیزاں
قدم اپنے بڑھائے

سحر کا خواب
آنکھوں میں سجائے

سفر جتنا بھی ہم طے کر رہے تھے
مسافت تھی کہ بڑھتی جا رہی تھی

سکوت صبح کی مایوسیوں میں
جو اک تنہا رفیق رہروی تھی

وہی شمع تمنا بجھ رہی تھی
عذاب تیرگی نازل ہوا

مجھ پر بھی اس پر بھی
کہ یہ حکم فلک تھا

سحر کا خواب
دونوں کا گناہ مشترک تھا