EN हिंदी
غروب | شیح شیری
ghurub

نظم

غروب

راج نرائن راز

;

میں اکثر سوچا کرتا ہوں
کاش میں نٹ کھٹ بالک ہوتا

اور پٹک دیتا اک پل میں
خواہش کے اونچے گنبد سے

جیون کا بے رنگ کھلونا
اور کہیں جا کر سو جاتا

لوگ ٹھٹک جاتے پل بھر کو
لمبی آہیں بھرتے کہتے!

کیسا کھلونا! ٹوٹ گیا ہے!
کام میں پھر وہ یوں کھو جاتے

جیسے اندھی شب میں دھوئیں کے
سانپ فلک کی جانب لپکیں