EN हिंदी
گوشت کی سڑکوں پر | شیح شیری
gosht ki saDkon par

نظم

گوشت کی سڑکوں پر

عادل منصوری

;

پھول باسی ہو گئے ہیں
لمس کی شدت سے تھک کر

ہاتھ جھوٹے ہو گئے ہیں
اس جگہ کل نہر تھی اور آج دریا بہہ رہا ہے

بوڑھا مانجھی کہہ رہا ہے
خواہشوں کے پیڑ پر لٹکے ہوئے

سایوں کو دیمک کھا رہی ہے
وقت کی نالی میں

سورج چاند تارے بہہ رہے ہیں
برف کے جنگل سے شعلے اٹھ رہے ہیں

خواب کے جلتے ہوئے چیتے
میری آنکھوں میں آ کر چھپ گئے ہیں

گھر کی دیواروں پہ
تنہائی کے بچھو رینگتے ہیں

تشنگی کے سانپ
خالی پانی کے مٹکے میں اپنا منہ چھپائے رو رہے ہیں

رات کے بہکے ہوئے ہاتھی
افق کے بند دروازے پہ دستک دے رہے ہیں

ہاتھ چھوڑو
ہاتھ میں کانٹا چبھا ہے

تین دن سے پھانس اندر ہے
نکلتی ہی نہیں

نام کیا ہے اور کہاں رہتے ہو تم
جامع مسجد کے قریب

کہتے ہیں مسجد کے مینارے بھی تھے
شہر میں اک زلزلہ آیا تھا جس سے گر گئے

گوشت کی سڑکوں پہ
کالے خون کے سایوں کا سورج چل رہا ہے

لذتوں کی آگ میں تن جل رہا ہے