EN हिंदी
غزال شب کے ساتھ | شیح شیری
ghazal-e-shab ke sath

نظم

غزال شب کے ساتھ

خلیل مامون

;

میں یہاں نہیں تھا
میں وہاں نہیں تھا

درد بھرے آسمان میں
چیخ بن کے

ابھر رہا تھا
تنگ گھاٹیوں میں

گونج بن رہا تھا
سمندروں پہ

ریزہ ریزہ گر رہا تھا
میں یہاں نہیں تھا

کالے جنگلوں کے گھور اندھیرے میں تھا
رفتہ رفتہ سب سیاہی مٹ گئی

سارے جنگل
کٹ گئے

ہیولے گھٹتے گھٹتے
غزال شب بنے

اندھیرے چھٹ گئے
ابر کے سیاہ ٹکڑے دھند بن گئے

چار سو دھند پھیلتی گئی
اکائیوں کو دور دور تک بہاتی

چار سو پھیلتی گئی
دھند میں

غزال شب نے
رفتہ رفتہ آنکھ کھولی

زبان سے کچھ نہ بولی
ہفت آسمانوں سے لے کے

تحت الثری تک
ہزارہا چراغ جل اٹھے

روشنی سے جل گئی
غزال شب کی آنکھ نور تھی

غزال شب کی آنکھ طور تھی
رفتہ رفتہ

روشنی نے روشنی کو
اپنی جانب کھینچا

اور میں نور میں نہا گیا
دودھیا سیہ رنگ

چہار سمت چھا گیا
پانیوں کا زور

بڑھنے لگا
سیلاب آیا

باندھ ٹوٹے
ریت کے گھروندے

مٹی کے گاؤں
پتھروں کے شہر ڈھہ گئے

صبح و شام کے کنارے
ایک دوجے سے گلے مل گئے

اندھیرے جسم کے کھنڈر کی
سیاہ طاقوں میں

دلوں کے سو چراغ جل گئے
رفتہ رفتہ

غزال شب نے آنکھ بند کی
اور

سارا پانی کھائی کی طرف چلا گیا
تیز پانیوں میں

میں بھی آ گیا
اب فقط

میں روشنی میں بند ہوں
اور

اندھیروں کو ترس رہا ہوں
میں یہاں نہیں ہوں

میں
غزال شب کے ساتھ ہوں

میں
غزال شب کے ساتھ ہوں