EN हिंदी
گوتم بدھ | شیح شیری
gautam-budh

نظم

گوتم بدھ

میکش اکبرآبادی

;

اک جنازے کو اٹھائے جا رہے تھے چند لوگ
تم نے پوچھا کیا ہوا کیوں جا رہے ہو تم ملول

تم کو لوگوں نے بتایا مر گیا ہے ایک شخص
اور یوں مرتے ہیں ناداں ہوں کہ ارباب عقول

مانگنے کو چند پیسے پیٹ بھرنے کے لئے
جا رہا تھا راستے سے ایک بے بیچارہ فقیر

تم نے دیکھا کوئی اس کا پوچھنے والا نہیں
تھا مرض میں مبتلا وہ قید نکہت کا اسیر

چشم حق بیں کے لئے عبرت کے نظارہ ملے
ہستیٔ انسان پہ جو زندگانی دیکھ کر

عیش و عشرت کے مزے بیکار سے ثابت ہوئے
نقش عالم میں نمایاں رنگ فانی دیکھ کر

راج چھوڑا بادشاہت کی امیدیں ترک کیں
ہو گیا بیتاب دل روح حقیقت کے لئے

چھوڑ دیں آسائشیں پھرتے رہے تم کو بہ کو
ہستئ معبود کی نظر عقیدت کے لئے

اضطرابانہ بسر کی زندگانی مدتوں
کلفتیں رہ کے اٹھائیں موسموں کی شدتیں

کی ریاضت رات دن دل کی تسلی کے لئے
جا بجا پھرتے رہے کیں مرشدوں کی خدمتیں

دور بستی سے گیا کے اک شجر کی چھاؤں میں
تم کو بالآخر سکون جاودانی مل گیا

دفعتاً چمکی حقیقت کی تجلی سامنے
محنت پیہم سے راز زندگانی مل گیا

اب بھی پیرو ہیں تمہارے تم ہو ان کے دیوتا
اب بھی پر ان کی عقیدت سے تمہارا جام ہے

یہ نتائج ہیں تمہارے بے غرض اعمال کے
تم نہیں زندہ مگر زندہ تمہارا نام ہے