EN हिंदी
غم کا آہنگ ہے | شیح شیری
gham ka aahang hai

نظم

غم کا آہنگ ہے

اختر ضیائی

;

غم کا آہنگ ہے
اس شام کی تنہائی میں

دام نیرنگ ہے
آغاز کا انجام لیے

کوئی نغمہ کوئی خوشبو نہیں
پروائی میں

دل کے آئینے میں
اور روح کی گہرائی میں

ایک ہی عکس کئی نام لیے
رقص میں ہے

پرتو حسن دلآرام لیے
پھر ترے دھیان میں بیٹھا ہوں

تہی جام لیے
حسرت سعی طلب

بے سر و سامان بھی ہے
سخت ہیجان بھی ہے

جلتے بجھتے سے دیے
زیست کی پہنائی میں

وقت کی جھیل میں
یادوں کے کنول

دور تک دھند کے ملبوس میں
مانوس نقوش

چاندنی رات پون
تاج محل

تلخ ماضی کی حکایات ہیں
اور حال کے افسانے بھی

منتشر خواب ہیں
ویران صنم خانے بھی

ہاں مگر یاد
تیرے وصل کا پیمان بھی ہے

ایک مدت سے
تری دید کا ارمان بھی ہے!!