مجھ کو وہ کتا
صبا قدموں اچھلتا
مخملی سبزے پہ تحفہ
حسن مطلق کا بنا دلکش لگا تھا
لمبے بالوں
روئی کے گالوں کو پہنے
جسم اس کا گیند سا لگنے لگا تھا
اک گلابی نرم انگلی
نرم پٹا
ہلکی سی زنجیر
وہ کتا بہت اچھا لگا تھا
ہاں مگر وہ گیند سا
کتا اچھلتا بھی
اچانک ایک پتھر کے سرے پر
سونگھتا کچھ رک گیا
اور عام کتوں کی طرح
اک ٹانگ اپنی جب اٹھا کر
حسب خصلت کر گیا
غارت تماشا ہو گیا
نظم
غارت تماشا ہو گیا
جعفر ساہنی