EN हिंदी
ملاقات | شیح شیری
mulaqat

نظم

ملاقات

زبیر رضوی

;

رات سناٹا در و بام کے ہونٹوں پہ سکوت
راہیں چپ چاپ ہیں پتھر کے بتوں کی مانند

روشنی طاقتوں میں السائی ہوئی بیٹھی ہے
نیند آنکھوں کے دریچوں سے لگی بیٹھی ہے

دن کے ہنگاموں کی رونق کو بجھے دیر ہوئی
چاند کو نکلے ستاروں کو سجے دیر ہوئی

اب کسی چشم نگہ دار کا خطرہ بھی نہیں
وقت کے ہاتھ میں اب سنگ ملامت بھی نہیں

دل جو مچلے تو کوئی ٹوکنے والا بھی نہیں
جسم پگھلے تو کوئی دیکھنے والا بھی نہیں

اے نگار دل و جاں شوق کی باہوں میں مچل
سایہ سایہ یوں ہی آغوش چمن زار میں چل

دن ستم پیشہ ہے رازوں کو اگل دیتا ہے
رات معصوم ہے رازوں کو چھپا لیتی ہے