اندھاری رات کے آنگن میں یہ صبح کے قدموں کی آہٹ
یہ بھیگی بھیگی سرد ہوا یہ ہلکی ہلکی دھندلاہٹ
گاڑی میں ہوں تنہا محو سفر اور نیند نہیں ہے آنکھوں میں
بھولے بسرے ارمانوں کے خوابوں کی زمیں ہے آنکھوں میں
اگلے دن ہاتھ ہلاتے ہیں پچھلی پیتیں یاد آتی ہیں
گم گشتہ خوشیاں آنکھوں میں آنسو بن کر لہراتی ہیں
سینے کے ویراں گوشوں میں اک ٹیس سی کروٹ لیتی ہے
ناکام امنگیں روتی ہیں امید سہارے دیتی ہے
وہ راہیں ذہن میں گھومتی ہیں جن راہوں سے آج آیا ہوں
کتنی امید سے پہنچا تھا کتنی مایوسی لایا ہوں
نظم
ایک واقعہ
ساحر لدھیانوی