افق کے دریچے سے کرنوں نے جھانکا
فضا تن گئی راستے مسکرائے
سمٹنے لگی نرم کہرے کی چادر
جواں شاخساروں نے گھونگھٹ اٹھائے
پرندوں کی آواز سے کھیت چونکے
پر اسرار لے میں رہٹ گنگنائے
حسیں شبنم آلود پگڈنڈیوں سے
لپٹنے لگے سبز پیڑوں کے سائے
وہ دور ایک ٹیلے پہ آنچل سا جھلکا
تصور میں لاکھوں دیے جھلملائے
نظم
ایک منظر
ساحر لدھیانوی