EN हिंदी
ڈوبتی کرنیں | شیح شیری
Dubti kirnen

نظم

ڈوبتی کرنیں

شبنم مناوری

;

وہ پیوستہ نگاہیں اپنے سینے میں اتر جائیں
ترستی آتما کو لمحہ بھر تو چین آ جائے

بکھرتی ساعتیں پھر ایک نقطہ میں سمٹ جائیں
مچلتی چاندی کہسار کے دامن پہ لہرائے

فلک کے نیلگوں ساگر سراپا نور بن جائیں
مگر میں نے سنا ہے چاندنی جب یوں اترتی ہے

تو نیلے پانیوں میں گونجتی موجیں الجھتی ہیں
اجالے تیرگی سے آ لپٹتے ہیں تو اجلے پیرہن بھی بھیگ جاتے ہیں

کہیں ایسا نہ ہو کوئی ابھرتی موج بل کھاتی دامن بھگو دے
اور میں محرومیوں کی کشتیوں میں ساحلوں سے دور ہو جاؤں

یہ خدشہ برملا لیکن وہ شرمیلی نگاہیں راحت جاں ہیں
سمٹتی ہیں تو کالے پانیوں کا خوف بڑھتا ہے

بکھرتی ہیں تو شعلے سے لپکتے ہیں
وہ یخ بستہ نگاہیں سرد راتوں کی طرح

میرے لہو کی چاندنی سے خواب کی صورت گریزاں
تہ بہ تہ تاریکیوں میں روشنی کی اک کرن جیسے

بپھرتی لہر کے گرداب میں بے بادباں کشتی
کسی کا شانۂ صحرا میں بہتا خوبصورت پھول

مرجھانے سے پہلے دل گرفتہ
خواہشوں میں زرد پتوں سی اداسی

حسرتیں تکمیل کی جھنکار سے عاری
مقدر خون آشامی