EN हिंदी
ڈسٹ بن | شیح شیری
dustbin

نظم

ڈسٹ بن

ساقی فاروقی

;

صبح کے جگ مگ سورج کو
شام کے نارنجی بادل میں

کیوں گہناتی ہو
وہ کیا اندیشہ ہے

جس کے بڑھتے قدموں کی دھمک سنی
اور تم نے اپنے آنسو اپنے اندر گرا لیے

اپنی روح میں نوحے جمع کیے
اور نسیاں کی ڈسٹ بن میں پھینک دئیے

وہ کون سا مجرم درد ہے
جس کو دل کے شب خانوں میں چھپائے

جس کے نادیدہ شعلوں سے نظر جلائے
بیٹھی ہو

چور ذہن کے
پچھلے شیلف پے

تہہ کرکے مجھے مت رکھو
مجھ سے جان چھڑانی ہو تو

مجھے شعور کے شیش محل میں زندہ کرو؛
مجھے زندہ کرو

مرے ہونے کا اقرار کرو
مری طاقت سے انکار کرو

مجھے ماردو؛؛