زمانے کے پاؤں میں زنجیر ڈالو
کہ یہ چھپکلی کی طرح رینگتا وقت
امیدوں کے شہ پر کو چھونے لگا ہے
اسے روک بھی دو
کہ یہ فیل پا اب ہمارے سبک جسم کو روند دے گا
ہمارے تخیل کے پر توڑ دے گا
یہ سیل رواں آرزو کے گھروندے کی بنیاد کو چاٹ لے گا
اگر دوڑتا وقت میری طرح
ایک مرکز پہ کچھ دیر ٹھہرا رہے
نیند کے دیوتا
آنکھ کی پتلیوں کے جھروکوں سے جھانکیں گے
اور آ بسیں گے
دلوں کی اجڑتی ہوئی بستیوں میں
یہ آنکھیں کہ جن کا لہو
رتجگے کی لگائی ہوئی آگ میں جل رہا ہے
انہیں سرد ہاتھوں کے مہکے ہوئے
لمس کی جستجو ہے
انہیں آرزو ہے
کہ کوئی دلآرام
خوابوں کے گجرے سجا کر کہے
''اے مرے سر پھرے
میں یہاں ہوں یہاں
کس لیے تو مجھے
وقت کی بے اماں وسعتوں میں کہیں
ڈھونڈھتا پھر رہا ہے''
نظم
دل آرام
شہزاد احمد