میں ہی میں ہوں
اور میری اس میں میں کی ممیاہٹ میں
اپنے نہ ہونے کے خوف کی جھنجھلاہٹ ہے
سمجھ گئے نا
آپس ہی کی بات ورنہ ''الف'' سے ''ی'' تک
میں میں کی گردان ہی میری ٹیس ہے
یہ کیا
آپ بھی بھولے باچھا ہیں
میں نے کہا نا مجھے نہ ڈھونڈیں
ایسی فضول تلاش کا مقصد
میرے اندر تو مت جھانکیں
ہاں باہر سے جتنا چاہے بجائیں میں میں
میں میں
دیکھا یہ سرکاری ناپ تول ہے
یہی تو ڈھول کا پول ہے

نظم
ڈھول کا پول
سرمد صہبائی