دشت اجنبیت میں
آشنائی کی چھاؤں
ساتھ چھوڑ جائے تو
ہر طرف بگولوں کا
رقص گھیر لیتا ہے
دشت اجنبیت میں
آشنائی کی چھاؤں
ساتھ چھوڑ جائے تو
یاس گھیر لیتی ہے
آس کے جزیرے کو
اور اس جزیرے کو
کب کسی نے دیکھا ہے
دشت اجنبیت میں
آشنائی کی چھاؤں
ساتھ چھوڑ جائے تو
بادلوں کے سائے بھی
سرگراں سے رہتے ہیں
زندگی کے چہرے سے
رنگ روٹھ جاتے ہیں
رنگ روٹھ جانا تو
موت کی علامت ہے
دشت اجنبیت میں
آس کے جزیروں پر
جب کبھی اترنا تم
آشنائی کی چھاؤں
ساتھ چھوڑ جائے تو
آس کے جزیروں کو
یاس میں سمو لینا
اور دل کے دامن کو
آنسوؤں سے دھو لینا
نظم
دشت اجنبیت میں
کرامت بخاری