کیا کیا منظر دیکھ رہی ہیں آنکھیں میری
کب سے ان اجلے شیشوں پر
سائے لرزاں ہیں
کچھ دھندلائے منظر ارمانوں کی جادو نگری سے
سینے کی تاریکی سے
جگنو کی مانند جھلکتے رہتے ہیں رنگ بدلتے رہتے ہیں
بند اگر ہو جائیں یہ آنکھیں
سارے منظر
سارے پس منظر
بے الفاظ بیاں کی صورت
اک کورے کاغذ میں ڈھل کر
(یکسر روپ بدل کر)
ٹھہری ٹھہری آنکھوں کی تنہائی میں کھو جائیں گے
دشت عدم کا سناٹا ہو جائیں گے
نظم
دشت عدم کا سناٹا
اکبر حیدرآبادی