بہر کیف جو درد ہوتا ہے
وہ درد ہوتا ہے
ایڑی میں کانٹا چبھے
تو بدن تلملاتا ہے
دل ضبط کرتا ہے روتا ہے
جو برگ ٹہنی سے گرتا ہے
وہ زرد ہوتا ہے
چکی کے پاٹوں میں دانے تو پستے ہیں
پانی سے نکلے تو مچھلی تڑپتی ہے
طائر قفس میں
گرفتار ہوں تو پھڑکتے ہیں
بادل سے بادل ملیں تو کڑکتے ہیں
بجلی چمکتی ہے
برسات ہوتی ہے
جو ہجر کی رات ہوتی ہے
وہ ہجر کی رات ہوتی ہے
ہم اپنی وحشت میں
جو بھیس بدلیں
کوئی روپ دھاریں
سمندر بلوئیں یا دیوار چاٹیں
تصور کی جھلمل میں
دن رات کاٹیں
پہاڑوں پہ چھٹی منانے کو جائیں
ندی میں نہائیں
غذاؤں کی لذت میں سرشار ہوں
روز پوشاک پر ایک پوشاک بدلیں
کسی عطر کی پھوار چھڑکیں
چراغوں کی رنگین لو میں
بھرے رس بھرے ہونٹ چھو لیں
صنوبر کے باغوں میں گھومیں
مگر بوجھ دل کا جو ہوتا ہے
وہ تو بدستور ہوتا ہے
اندر ہی اندر کہیں
سات پردوں میں مستور ہوتا ہے!
میں آج کی صبح
معمول سے قبل جاگا ہوں
خوابیدہ بیٹوں کے گالوں پہ
بوسہ دیا ہے
وضو کر کے سجدہ کیا ہے
بہت دیر تک
آلتی پالتی مار کر
خود میں گم ہو کے
یوگا کے آسن میں بیٹھا ہوں
سوکھے ہوئے سارے گملوں کو
پانی دیا ہے
چھتوں کھڑکیوں اور زینوں میں
مکڑی کے جالوں کو پونچھا ہے
چڑیوں کو
روٹی کے ریزے بھی ڈالے ہیں
لیکن جو چھالے مرے دل کے ہیں
وہ بہر کیف چھالے ہیں
چھالوں کی سوزش سے
تکلیف ہوتی ہے
دل ضبط کرتا ہے روتا ہے
جو درد ہوتا ہے
وہ درد ہوتا ہے!!
نظم
درد ہوتا ہے
رفیق سندیلوی