مرے نفس کی وادیوں میں یہاں سے نکل چلنے جیسی ہوا چل رہی ہے
افق تا افق اک مہکتا دھواں ہے
صدا ذائقے رنگ اور لمس خوشبو میں تحلیل ہونے لگے ہیں
مہ و سال رفتہ شب و روز آئندہ لمحے میں تبدیل ہونے لگے ہیں
زماں ایک سکتہ
مکاں ایک نقطہ
لکیریں عدد حرف سارے
نم آلود کاغذ کی ترکیب میں گھل رہے ہیں
قبائے بدن سرسراتی ہے اسرار جاں زیر بند قبا کھل رہے ہیں
کوئی سرمدی لو سی اٹھی ہے جس سے فضا جل رہی ہے
ہوا چل رہی ہے
نظم
دم واپسیں
عبد الاحد ساز