چلو اس کوہ پر اب ہم بھی چڑھ جائیں
جہاں پر جا کے پھر کوئی بھی واپس نہیں آتا
سنا ہے اک ندائے اجنبی باہوں کو پھیلائے
جو آئے اس کا استقبال کرتی ہے
اسے تاریکیوں میں لے کے آخر ڈوب جاتی ہے
یہی وہ راستہ ہے جس جگہ سایہ نہیں جاتا
جہاں پر جا کے پھر کوئی کبھی واپس نہیں آتا
جو سچ پوچھو تو ہم تم زندگی بھر ہارتے آئے
ہمیشہ بے یقینی کے خطر سے کانپتے آئے
ہمیشہ خوف کے پیراہنوں سے اپنے پیکر ڈھانکتے آئے
ہمیشہ دوسروں کے سائے میں اک دوسرے کو چاہتے آئے
برا کیا ہے اگر اس کوہ کے دامن میں چھپ جائیں
جہاں پر جا کے پھر کوئی کبھی واپس نہیں آتا
کہاں تک اپنے بوسیدہ بدن محفوظ رکھیں گے
کسی کے ناخنوں ہی کا مقدر جاگ لینے دو
کہاں تک سانس کی ڈوری سے رشتے جھوٹ کے باندھیں
کسی کے پنجۂ بے درد ہی سے ٹوٹ جانے دو
پھر اس کے بعد تو بس اک سکوت مستقل ہوگا
نہ کوئی سرخ رو ہوگا، نہ کوئی منفعل ہوگا
نظم
بلاوا
زہرا نگاہ