جب سے بے نور ہوئی ہیں شمعیں
خاک میں ڈھونڈھتا پھرتا ہوں نہ جانے کس جا
کھو گئی ہیں مری دونوں آنکھیں
تم جو واقف ہو بتاؤ کوئی پہچان مری
اس طرح ہے کہ ہر اک رگ میں اتر آیا ہے
موج در موج کسی زہر کا قاتل دریا
تیرا ارمان، تری یاد لیے جان مری
جانے کس موج میں غلطاں ہے کہاں دل میرا
ایک پل ٹھہرو کہ اس پار کسی دنیا سے
برق آئے مری جانب ید بیضا لے کر
اور مری آنکھوں کے گم گشتہ گہر
جام ظلمت سے سیہ مست
نئی آنکھوں کے شب تاب گہر
لوٹا دے
ایک پل ٹھہرو کہ دریا کا کہیں پاٹ لگے
اور نیا دل میرا
زہر میں دھل کے، فنا ہو کے
کسی گھاٹ لگے
پھر پئے نذر نئے دیدہ و دل لے کے چلوں
حسن کی مدح کروں شوق کا مضمون لکھوں
نظم
بلیک آؤٹ
فیض احمد فیض