انجانے میں شاید مجھ سے ہی
کچھ ایسی بھول ہوئی ہے
دودھ بلوتی ماں کی آنکھیں
تارہ تارہ بکھر رہی ہیں
ماں کہتی ہے دھیرے بولو
چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاؤ
آوازوں کی گونج دھمک سے
قدموں کی بوجھل دستک سے
دل میں آندھی سی چلتی ہے
دن چانن میں کیسی جنگل رات اتری ہے
گھر کی چوکھٹ اونگھ رہی ہے
انگنائی کی دھوپ بھی کھوئی کھوئی سی ہے
ماں کو شاید یہ الجھن ہے
اس نے اپنی ماں سے
جتنے دکھ ورثے میں پائے تھے
چپکے چپکے جل جانے کے جتنے قول نبھائے تھے
میں ان سب سے کیوں باغی ہوں
کتنی بھولی سیدھی ماں ہے
آگ کے ورثے سے انکار پہ روٹھ گئی ہے
نظم
بھولی ماں
منصورہ احمد