یوں تو اپنے ہی اندر کا سچ اور وہ سچ ہے ارے تا ابد تجھ کو کافی ہے
کل کی جانب سے اس بے یقینی کے سارے عوارض کا شافی ہے
تیری صد سمت اور بے غرض چھوٹی چھوٹی کئی خدمتوں کا یہ پشتارہ ہے
بے چارہ
اور اس کے ساتھ ایک درد ندامت ہی وجہ معافی ہے
اس طرح پیش بینی روایات اور مصلحت کے منافی ہے
پھر بھی
تجھے حال کا کوئی یک طرفہ صاحب مقال آج جو بھی کہے
یاد یہ بھی رہے
کتنے حالوں کی تاریخ نے ان کو کیا کر دیا
جس کا جتنا تھا حق رفتہ رفتہ ادا کر دیا
جب ترا حال ماضی بنے گا تو گو اگلے پچھلوں پہ حیرت کریں گے
تیری خود ناتمامی نہ واضح ہوئی تو حکایت شکایت کریں گے
اور کچھ لغزشوں کی ندامت کریں گے
مگر تیرے سچ اور تجھ سے بہت ہی محبت کریں گے
نظم
بے یقینی
جمیل الدین عالی