EN हिंदी
بے روزگار 2 | شیح شیری
be-rozgar 2

نظم

بے روزگار 2

سراج فیصل خان

;

میں
اپنی

جانب
سے پوری کوشش

تو کر رہا ہوں
مگر نتیجہ

خلاف آئیں تو کیا کروں میں
مجھے

پتہ ہے
کہ جاب پر ہی

ہمارا فیوچر ٹکا ہوا ہے
مگر

یہ رستہ تو
دن بہ دن اب

طویل ہوتا ہی جا رہا ہے
جو ڈر

تمہارا ہے
میرے ڈر سے

الگ نہیں ہے
ہو تم پریشاں

تو میں بھی جاناں سکوں میں کب ہوں
میں

اپنی
جانب

سے پوری کوشش
تو کر رہا ہوں

کہیں پہ
مذہب جواز تھا تو

کہیں پہ
رشوت نے ہاتھ کاٹے

کہیں پہ
پرچا بہت کٹھن تھا

کہیں پہ
بیمار ہو گیا میں

کہیں پہ
چھوٹی ہے ٹرین میری

کہیں پہ
ڈگری بنی کمی ہے

کہی پہ
دشمن ہوئی گھڑی ہے

میں
اپنی

جانب
سے پوری کوشش

تو کر رہا ہوں
مگر نتیجہ

خلاف آئیں تو کیا کروں میں
بہت

امیدوں کا بوجھ
کاندھوں پہ لے کے پڑھنا

سبھی کے
خوابوں کو

اپنی آنکھوں میں
بھر کے پڑھنا

سہل نہیں ہے
مگر میں پھر بھی محاذ پر اس طرح ڈٹا ہوا ہوں

میں
اپنی

جانب
سے پوری کوشش

تو کر رہا ہوں
یہ

دور
کتنا

ڈراؤنا ہے
نکل کے دیکھو

گو
ایک

ہڈی کی
آرزو میں

ہزار کتے جھگڑ رہے ہیں
گلی گلی

سب بھٹک رہے ہیں
کہ کوچ ٹرینوں کے گھر بنے ہیں

میں خود بھی
ٹرینیں بدل رہا ہوں

نہ جانے کب سے بھٹک رہا ہوں
میں

اپنی
جانب

سے پوری کوشش
تو کر رہا ہوں

دعائیں
تم بھی تو

مانگتی ہو
ملی ہو جب سے

نماز کوئی
قضا تمہاری

نہیں ہوئی ہے
ہنسی لبوں سے اڑی ہوئی ہے

تمہاری رنگت بدل گئی ہے
مگر

دعائیں
اثر نا لائیں تو کیا کرو تم

میں
اپنی

جانب
سے پوری کوشش

تو کر رہا ہوں
مگر نتیجہ

خلاف آئیں تو کیا کروں میں
میری تمہاری

طرح
کروڑوں محبت پر

یہی تو
خدشے بنے ہوئے ہیں

مگر
یہاں کی

حکومتوں کے
جو مسئلے ہیں وہ اور ہی ہیں

میں
اپنی

جانب
سے پوری کوشش

تو کر رہا ہوں
مگر نتیجہ

خلاف آئیں تو کیا کروں میں