EN हिंदी
بے نشاں | شیح شیری
be-nishan

نظم

بے نشاں

مغنی تبسم

;

بات یوں ختم ہوئی
درد یوں گیا جیسے کہ ساحل ہی نہ تھا

سارے الطاف و کرم بھول گئے
جور فراموش ہوئے

رات یوں بیت گئی جیسے کہ نکلا ہی نہ تھا
مطلع شوق پہ وہ ماہ تمام

اشک یوں سوکھ گئے جیسے کہ دامن میرا
اس کا آنچل تھا

وہ پیمانۂ ناز
جانے گردش میں ہے کہ ٹوٹ گیا

میں زمانے کے کنارے یوں کھڑا ہوں تنہا
جیسے ایک جست لگا ہی دوں گا

اور کل باد سحر
یوں مٹا دے گی ہر اک نقش قدم

جیسے اس راہ سے پہلے کوئی گزرا ہی نہ تھا