ایک دو پل تو ذرا اور رکو
ایسی جلدی بھی بھلا کیا ہے چلے جانا تم
شام مہکی ہے ابھی اور نہ پلکوں پہ ستارے جاگے
ہم سر راہ اچانک ہی سہی
مدتوں بعد ملے ہیں تو نہ ملنے کی شکایت کیسی
فرصتیں کس کو میسر ہیں یہاں
آؤ دو چار قدم اور ذرا ساتھ چلیں
شہر افسردہ کے ماتھے پہ بجھی شام کی راکھ
زرد پتوں میں سمٹتی دیکھیں
پھر اسی خاک بہ داماں پل سے
اپنے گزرے ہوئے کل کی خوش بو
لمحۂ حال میں شامل کر کے
اپنی بے خواب مسافت کا ازالہ کر لیں
اپنے ہونے کا یقیں
اور نہ ہونے کا تماشا کر لیں
آج کی شام ستارا کر لیں
نظم
بے خواب مسافت
خالد معین