خوف ابھی جڑا نہ تھا سلسلۂ کلام سے
حرف ابھی بجھے نہ تھے دہشت کم خرام سے
سنگ ملال کے لیے دل آستاں ہوا نہ تھا
اقلیم خواب میں کہیں کوئی زیاں ہوا نہ تھا
نکہت ابر و باد کی مستی میں ڈولتے تھے گھر
صاف دکھائی دیتے تھے
اس کی گلی کے سب شجر
گرد مثال دستکیں در پہ ابھی جمی نہ تھیں
رنگ فراق و وصل کی پرتیں ابھی کھلی نہ تھیں
ایسے میں تھی کسے خبر
جب ساعت ماہتاب ہو
یوں بھی تو ہے کہ اور ہی نقشۂ خاک و آب ہو
نظم
بے خبری
جمیل الرحمن