ہزار پوست استخواں
ہزار لب فسردگی
ہزار پردہ تشنگی
ہزار شاخ بے دلی
ہزار عشوہ خود سری
ہزار غمزہ عاجزی
ہزار پیچ آگہی
ہزار عقدہ ابلہی
ہزار لہجہ خامشی
ہزار مرگ زندگی
غرور برتری کے ساتھ اختلاج کمتری
یہ ریزہ ریزہ آدمی
یہ پارہ پارہ آدمی
ہزار چہرہ آدمی
معاشیات حرص کا ابھرتا خلفشار ہے
مجسم انتشار ہے
نظام بے مہار کا عظیم شاہکار ہے
ہزار چہرہ آدمی
خود اپنا چہرہ ڈھونڈھتا
رواں دواں
ابھی یہاں
ابھی وہاں
نہ کوئی سمت ذہن میں
نہ کوئی راہ سامنے
فقط فریب کاریٔ انا کی گرد اوڑھ کر
کبھی ہے دوڑتا ادھر
کبھی ہے بھاگتا ادھر
ہو کون اس کا ہم سفر
خود اس کے چہروں کے ہجوم میں جو چہرہ کھو گیا
دوبارہ وہ ملے گا کیا
تعاون آئینہ کا بھی فریب ہی فریب ہے
نظر لگائے غوطہ کیا کہ آئینہ اتھاہ ہے
خود اپنے چہروں کا ہجوم ورطۂ نگاہ ہے
نہ کوئی نقش منفرد
نہ کوئی عکس معتبر
ہزار چہرہ آدمی
ہزار چہرگی لیے
بھٹک رہا ہے بے ارادہ صرف اسی تلاش میں
کہ اس کو
چہرہ چاہئے
خود اپنا چہرہ چاہئے
وہ اصلی چہرہ چاہئے
بچھڑ کے جو سسک رہا ہے چہروں ہی کی بھیڑ میں
نظم
بے چہرگی
پرویز شاہدی