گزرے ہوئے ماہ و سال کے غم
تنہائی شب میں جاگ اٹھے ہیں
عمر رفتہ کی جستجو میں
اشکوں کے چراغ جل رہے ہیں
آسائش زندگی کی حسرت
ماضی کا نقش بن چکی ہے
حالات کی ناگزیر تلخی
ایک ایک نفس میں بس گئی ہے
ناکامئ آرزو کو دل نے
تسلیم و رضا کے نام بخشے
ملنے کی خوشی، بچھڑنے کا غم
کیا کیا تھے فریب زندگی کے
اک عمر میں اب سمجھ سکے ہیں
خوشیوں کا فسوں گریز پا ہے
اب ترک دعا کی منزلیں ہیں
دامان طلب سمٹ چکا ہے
ناکامئ شوق مٹتے مٹتے
جینے کا شعور دے گئی ہے
یہ غم ہے نوائے شب کا حاصل
یہ درد متاع زندگی ہے
اجڑی ہوئی ہر روش چمن کی
دیتی ہے سراغ رنگ و بو کا
ویران ہیں زندگی کی راہیں
روشن ہے چراغ آرزو کا
نظم
بازیافت
محمود ایاز