خامشی رینگتی ہے راہوں پر
ایک افسوں بہ دوش خواب لیے
رات رک رک کے سانس لیتی ہے
اپنی ظلمت کا بوجھ اٹھائے ہوئے
مضمحل چاند کی شعاعوں میں
بیتے لمحوں کی یاد رقصاں ہے
جانے کن ماہ و سال کا سایہ
وقت کی آہٹوں پہ لرزاں ہے
ایک یاد اک تصور رفتہ
سینۂ ماہ سے ابھرتا ہے
ہے یہ سرشاریٔ حیات کا رنگ
درد کن منزلوں سے گزرا ہے
نظم
بازگشت
محمود ایاز