کس قیامت کا تبسم ہے ترے ہونٹوں پر
استعاروں میں بھٹکتے ہیں خیالات مرے
میں کہ ہر سانس کو اک شعر بنا سکتا ہوں
نظم ہونے کو پریشان ہیں جذبات مرے
آنکھ جمتی نہیں لہراتے ہوئے قدموں پر
کسی نغمے کا تلاطم ہے کہ رفتار تری
رقص انگڑائیاں لیتا ہے تری بانہوں میں
حیرت آثار ہے کیوں چشم فسوں بار تری
بے خیالی میں نشیبوں سے گزرنے والی
فرش ہموار سے الجھیں گے قدم رہ رہ کر
لب تھرک جائیں گے الفاظ کی موسیقی پر
اپنی رفتار سے الجھیں گے قدم رہ رہ کر
دیکھتے دیکھتے بھرپور جوانی کی حیا
تیری بے باک نگاہوں میں سما جائے گی
پردۂ چشم سے نکلیں گی جھجک کر نظریں
زلف ڈرتی ہوئی رخسار پہ لہرائے گی
جسم ہر گام پہ لغزش کا اشارہ پا کر
جام لبریز کی مانند چھلک جائے گا
ریشمی ریشمی زلفوں سے پھسلتا آنچل
کبھی شانوں سے کبھی سر سے ڈھلک جائے گا

نظم
بادۂ نیم رس
سیف الدین سیف