بعد مدت چلے آئے کیسے ادھر
آج کس طرح میرا خیال آ گیا
ٹھہرو رک جاؤ رشتہ ہے کچھ مجھ سے بھی
کچھ دنوں کا نہیں ربط دیرینہ ہے
نقش پا میں تمہارے لیے بیٹھا ہوں
راز سینے میں ہے لب سیئے بیٹھا ہوں
ایسے گزرے ہو پہچانتے ہی نہیں
تم تو جیسے مجھے جانتے ہی نہیں
رک گیا اور کچھ سوچ کر کھو گیا
دور اپنے تصور سے بھی ہو گیا
بھولی بسری ہوئی رات یاد آ گئی
بیتے لمحوں کی ہر بات یاد آ گئی
کس کے ہم راہ آیا تھا اس موڑ پر
کون ساتھ پانے لایا تھا اس موڑ پر
ہاں یہیں تیری زلفوں کا سایہ ملا
ہاں یہیں آرزؤں کا غنچہ کھلا
ہاں یہیں دل کی دھڑکن ہوئی تھی جواں
ہاں یہیں تو ملے تھے زمیں آسماں
اب میں اس موڑ سے کیا کہوں؟ تو بتا
پوچھتا ہے ''وہ سایہ کہاں رہ گیا''
نظم
اور موڑ نے کہا
صابر دت