EN हिंदी
اشومیدھ یگیہ | شیح شیری
ashwmedh yagya

نظم

اشومیدھ یگیہ

وزیر آغا

;

گوری چٹی یال گھنی سی
دودھ ایسی پوشاک بدن کی

لانبے نازک ماتھے پر مہندی کا گھاؤ
اڑتی گرتی خاک سموں کی

مٹھی بھر کر منہ پر مل کر دل کی پیاس بجھاؤ
صدیوں کے دکھ جھیلتے جاؤ

رہے سفر میں
ہرے مہکتے کھیتوں میں خوش باش پھرے

اپنے پیچھے آتی قوت کے نشے میں کھویا
رستے کے ہر بھاری پتھر کو ٹھوکر سے توڑے

آگے ہی آگے کو دوڑے
آج یہاں تک آ پہنچا ہے

پر وہ کل اب دور نہیں ہے
جب اس کے قدموں کے بھالے

قریہ قصبہ شہر سبھی کو
پل بھر میں مسمار کریں گے

ہر شے کو تاراج کریں گے
اس مرقد سے

اس مرقد تک
راج کریں گے

اور پھر وہ دن بھی آئے گا
جب اک تیز سنہرا نشتر

شہ رگ میں اس کی اترے گا
خون کا فوارہ چھوٹے گا

اور وہ قوت
رینگتی اور پھنکارتی قوت

موج میں آ کر ناچ اٹھے گی
خوشی سے پاگل ہو جائے گی