الہ آباد میں ہر سو ہیں چرچے
کہ دلی کا شرابی آ گیا ہے
بہ صد آوارگی یا صد تباہی
بہ صد خانہ خرابی آ گیا ہے
گلابی لاؤ چھلکاؤ لنڈھاؤ
کہ شیدائے گلابی آ گیا ہے
نگاہوں میں خمار بادہ لے کر
نگاہوں کا شرابی آ گیا ہے
وہ سرکش رہزن ایوان خوباں
بہ عزم باریابی آ گیا ہے
وہ رسوائے جہاں ناکام دوراں
بہ زعم کامیابی آ گیا ہے
بتان ناز فرما سے یہ کہہ دو
کہ اک ترک شہابی آ گیا ہے
نوا سنجان سنگم کو بتا دو
حریف فاریابی آ گیا ہے
یہاں کے شہر یاروں کو خبر دو
کہ مرد انقلابی آ گیا ہے
نظم
الہ آباد سے
اسرار الحق مجاز