EN हिंदी
افلاک گونگے ہیں | شیح شیری
aflak gunge hain

نظم

افلاک گونگے ہیں

روش ندیم

;

مگر یہ آرزو کب تھی
کہ ہم افلاک کے فرمان کی سولی پہ جا لٹکیں

تو آخر کس لیے وقت و مکاں کی گھاٹیاں اتریں
بنا کر مرقدوں کو در عدم کے آسماں کی خاک چھانیں

اور پھر جیون کے موسم کو اسیری کا کفن اوڑھیں
مگر ان سب سوالوں کے جوابوں سے بہت پہلے

نیا دن سورجوں پر بیٹھ کر
کھڑکی کے رستے خواب زاروں میں اترتا ہے

ہم اپنے ٹتھ برش منہ میں لیے اور تولیے کو ہاتھ میں تھامے
پھر اک جبر مسلسل کے لئے تیار ہوتے ہیں

گھڑی کے ساز پر کیلنڈروں کے صفحے کتنے ہیں