وہ سالمیت تھی ایک وحدت
وہ کاملیت کسی طرح ایک غیر مضبوط ثانیے میں بکھر گئی تو
الگ ہوا اس کا ایک حصہ!
وہ ایک عنصر کا ایک حصہ
جھٹک کے دامن
خلا کے گہرے عمیق لا وقت فاصلوں کو عبور کرتا
ہزاروں صدیوں کی دوریوں پر چلا گیا ہے....!
کوئی نہیں جانتا کے کیسے وہ نامکمل شکستہ عنصر
ادھورے پن کی اذیتوں سے گزر رہا ہے
مگر وہ اتنا تو جانتا ہے
کہ جان سے بھی عزیز تر وہ ادھورا عنصر
اٹوٹ بندھن کی ایک ڈوری سے بے لچک سا بندھا ہوا ہے!
ہوا کی ڈوری کا اک سرا اس کے ہاتھ میں ہے
تو دوسرا اس کے ہاتھ میں ہے
اگر یہ رنجور ہو گیا تو
ہوا کے تاروں پہ دکھ کی لہریں
وہاں پہنچ کر
اسے بھی دکھ میں لپیٹ لیں گی!!
نظم
ادھورا عنصر
پروین شیر