اک بوسیدہ مسجد میں
دیواروں محرابوں پر
اور کبھی چھت کی جانب
میری آنکھیں گھوم رہی ہیں
جانے کس کو ڈھونڈ رہی ہیں
میری آنکھیں رک جاتی ہیں
لوہے کے اس خالی ہک پر
جو خالی خالی نظروں سے
ہر اک چہرہ دیکھ رہا ہے
اک ایسے انسان کا شاید
جو اک پنکھا لے آئے گا
لائے گا اور دور کرے گا
مسجد کی بے سامانی کو
خالی ہک کی ویرانی پر
میں نے جب اس ہک کو دیکھا
میری ننھی پھول سی بیٹی
میری آنکھوں میں دوڑ آئی
بھولی ماں نے اس کی
اپنی پیاری راج دلاری بیٹی کے
دونوں کانوں کو
اپنے ہاتھوں سے چھید دیا ہے
پھولوں جیسے کانوں میں پھر
نیم کے تنکے ڈال دیے ہیں
امیدوں آسوں کے سہارے
دل ہی دل میں سوچ رہی ہے
جب ہم کو اللہ ہمارا
تھوڑا سا بھی پیسہ دے گا
بیٹی کے کانوں میں اس دن
بالیاں ہوں گی بندے ہوں گے
میں نے انتھک محنت کر کے
پنکھا ایک خرید لیا ہے
مسجد کے اس خالی ہک کو
میں نے پنکھا سونپ دیا ہے
ہک میں پنکھا دیکھ کے مجھ کو
ہوتا ہے محسوس کہ جیسے
میری بیٹی بالیاں پہنے
گھر کی چھت پر گھوم رہی ہے
نظم
اڑے کبوتر اڑے خیال
منور رانا