چھان کر دیکھ لی ریگ دشت زیاں
ڈھونڈ پائے نہ ہم دوسرا آسماں
اجنبی موسموں کی اڑانوں میں ٹوٹے پروں کی طرح
ہم جئے بھی تو کیا
کس نے دیکھا ہمیں
چشم نم کے کناروں پہ ٹھہرے ہوئے منظروں کی طرح
رات کی آنکھ سے بہہ گئے خواب بھی ہم بھی
معدوم کی ان سلی نیند میں
یاد کے طاق میں اب تمنا کی لو
کا نشاں تک نہیں
واہمہ سا ہے بس
کوئی آہٹ تھی ہم راہ یا کچھ نہ تھا
خواب ہستی ہمیں اک اذیت بھرے
دام معدومیت کے سوا کچھ نہ تھا
نظم
عدم خواب کے خواب میں
ناہید قمر