تھرتھراتی رہی چراغ کی لو
اشک پلکوں پہ کانپ کانپ گئے
کوئی آنسو نہ بن سکا تارا
شب کے سایے نظر کو ڈھانپ گئے
کٹ گیا وقت مسکراہٹ میں
قہقہے روح کو پسند نہ تھے
وہ بھی آنکھیں چرا گئے آخر
دل کے دروازے جن پہ بند نہ تھے
سونپ جاتا ہے مجھ کو تنہائی
جس پہ دل اعتبار کرتا ہے
بنتی جاتی ہوں نخل صحرائی
تو نے چاہا تو میں نے مان لیا
گھر کو بازار کر دیا میں نے
بیچ کر اپنی ایک ایک امنگ
تجھ کو زردار کر دیا میں نے
اپنی بے چارگی پہ رو رو کر
دل تجھے یاد کرتا رہتا ہے
قہقہوں کے سیہ اجالے میں
جسم فریاد کرتا رہتا ہے
نظم
ایکٹرس
قتیل شفائی